ہر بوالہوس کو حسن ہے بیوپار کی طرح
ڈالی گئی یوں مصر کے بازار کی ” طرح “
بازار احتیاج میں خواہش کے نام پر
خود کولٹایا دولت بیکار کی طرح
دل ہے کہ ڈگمگائے سا پھرتا ہے آجکل
حیراں ہوں یہ بھی چل پڑا سرکار کی طرح
پہنا ہے کیوں لبادہ ء نفرت بتائیے
کیونکر کھڑے ہو راہ میں دیوار کی طرح
اٹھنے کا ڈھنگ یاد نہیں کس طرح اٹھیں
ہم سورہے ہیں مستقل بیدار کی طرح
در اصل پیرو کار شیاطین میں سے تھا
چاہا گیا جو ہر جگہ اوتار کی طرح
نسخہ بتاوں امت مسلم کی اوج کا
جینا پڑے گا ارطرل سالار کی طرح
کتنی عجیب بات ہے دل توڑ کر گیا
مفتی جسے بھی چاہا ہے دلدار کی طرح