ہر جبر کی دیوار کو توڑیں گے کسی دن
ہم ظلم کی آغوش سے نکلیں گے کسی دن
تم دیکھنا اسمان بھی برساۓ گا پتھر
ہم ظلمتِ انساں پہ جو بولیں گے کسی دن
کیوں روز بہایا یہاں جاتا ہے نیا خون
ہم ایسی رسومات کو توڑیں گے کسی دن
فی الحال ضمیر ان کا تو سویا ہوا ہے پر
یہ مارے گۓ لوگ بھی اٹھیں گے کسی دن
بچوں کا لہو دے کے بھی چپ ہیں جو ابھی تک
یلغار کی صورت وہی ابھریں گے کسی دن
پیتے ہیں تو کیوں دیر تلک ڈولتے ہیں لوگ
اس چیز کو ہم پی کے ہی دیکھیں گے کسی دن
نام اہلِ محبت کی زباں پر ہے ہمارا
ہم نوکِ سناں پر سے بھی گزریں گے کسی دن
جو آج مرے درد پہ ہنستے ہیں جہاں میں
وہ لوگ مجھے ٹوٹ کے روئیں گے کسی دن
جس سے ہو محبت اسے سجدے نہیں کرتے
ہم اپنے خدا کو گلے مل لیں گے کسی دن
جو لوگ ستم سہہ کے بھی چپ رہتے ہیں باقرؔ
برسیں گے تو پھر ٹوٹ کے برسیں گے کسی دن