ہر حسرت، تمنا، آرزو، دم توڑ رہی ہے
یوں لگتا ہے، حیات ساتھ چھوڑ رہی ہے
کبھی دم نکلتا ہے کبھی دم سنبھلتا ہے
دل کی دھڑکن تھم رہی ہے دوڑ رہی ہے
جانکنی کا عالم ہے جسم و جاں میں جنگ ہے
جیسے کشمکش روح و بدن موڑ توڑ رہی ہے
اب نہ جانے کس جگہ یہ جستجو لے جائے گی
ایک بار پھر یہ خوب تر سے میرا رخ موڑ رہی ہے
دنیا سے دل لگایا ہے عظمٰی نے خوب لیکن
اب خود ہی ان محبتوں کا بھرم توڑ رہی ہے