ہر شام تیرے آنگن میں خوشگوار اترے
لے کر پیامِ وفا بادِ بہار اترے
کھِل اٹھا تھا چمن خوشبو سے انکی
اشک اسکی آنکھوں سے جو دو چار اترے
گلہ ہر جائی کا کبھی کیا تو نہیں
فلک سے ستارے کیوں سوگوار اترے
ہوائیں ساکت ہی ہو گئیں کہ کہیں
ردا اس کے سر سے ناں سرِبازار اترے
آج سمجھا ہوں اداؤں کی زباں تو
کاشانہءِ وفا سے وہ بیزار اترے
دعوے وفاداری کے جو کرتے تھے وحید
نظروں میں سبھی اسکی بیکار اترے