شہرِ انصاف کا ہر شخص ستم گر دیکھا
جو ملا ہم سے اسی ہاتھ میں پتھر دیکھا
یہ بھی دیکھا تیرے یونٹوں پہ ہنسی تیر گئی
اور آنکھوں میں تیری غم کا سمندر دیکھا
میں اگر آبلہ پا تھا تو سبک گام نہ تھا
گرد محمل نے مجھے دوش ہوا پر دیکھا
چشم ساقی کا اشارہ تھا اُدھر ہاتھ بڑھا
پینے والے نے کہاں زہر کا ساغر دیکھا
کیا میرے جذبہ الفت کا یہ اعجاز نہیں
میں نے دیکھا تو مجھےاُس نے پلٹ کر دیکھا
میرے مٹنے کا سبب ہے تو یہی ہے شفیق
میرے اپنوں نے مجھے حرف مکرر دیکھا