اسد جھنڈیر ہر طرف غموں کے انگنت امبار دیکھتے ہیں
ہر کوئی رنج والم میں مبتلا گرفتار دیکھتے ہیں
ہر چہرہ دیکھتے ہیں افسردہ افسرہ سا
ہر ذھن شکست خوردہ نا خوشگوار دیکھتے ہیں
خدا جانے خوشیوں کو کس کی نظر لگ گئی
عید پر بھی ماحول نا سازگار دیکھتے ہیں۔۔۔
کیا یہ غربت کے کارن ھے یا پھر کوئی اور وجہ
بہر حال ایک ان چاھا سا مسلط آزار دیکھتے ہیں۔۔۔
ہر ایک اپنا منہ لیے بیٹھا ھے کونے میں۔۔۔
اس ٹج کے کارں رشتوں میں دراڑ دیکھتے ہیں۔
چھوٹے بڑوں کا ادب مانو بھول سے گئے ہیں۔۔۔
گو ہر طرف گستاخی کا گرم بازار دیکھتے ہیں۔
اب کوں جائے کس کی طرف فرصت کہاں کسے۔
یعنی آپ خود میں محدود ہر دوست یار دیکھتے ہیں
نفسا نفسی کا دور ھے اسد جہوں جسطرف دیکھو۔
ہر کوئی خود سے تنگ یعنی بے زار دیکھتے ہیں۔