ہزار تمنائیں وابستہءِ یار رکھی ہیں
نگاہیں امیدوں سے سرشار رکھی ہیں
کون جانے کیا ہو گیا ہے ہمیں
خزاں میں کیوں امید ِبہار رکھی ہیں
عہدِ وفا کی تھیں جو چند ساعتیں
تماشا بنائے سرِ بازار رکھی ہیں
جانتا ہوں ان راہوں کا مسافر نہیں وہ
آرزوئے وصل ادھر بیکار رکھی ہیں
گلہ بیوفائی کا وحید کرتا نہیں کہ یہاں
گل سے خوشبو اور بلبلیں بیزار رکھی ہیں