ہزاروں بار تیری انجمن میں ، میں گیا آیا
کبھی تو بھی یہ کہہ دے میرا دل چاہا چلا آیا
ملا کر خاک میں مجھ کو ، بتاؤ کیا مزا آیا
تمھیں کیا مل گیا آخر ، تمھارے ہاتھ کیا آیا
جو آیا بھی اسے تو صرف انداز جفا آیا
وفا کی راہ پر کب وہ وفا نا آشنا آیا
وہ چونکے، مجھ کو دیکھا ، اور ماتھے پر شکن آئی
مرے غم کے فسانے میں جہاں ذکر وفا آیا
انھیں لکھا ہے خط میں نے، نتیجہ دیکھئے کیا ہو
مرے قاصد کا دعوٰی ہے کہ بس میں اب گیا “ آیا “
نہیں تھے وہ ، تو میخانہ تھا سونا ، جام ویراں تھے
وہ آ پہنچے تو پھر پینے پلانے کا مزا آیا
یہ کہہ کہہ کر پلا دی مجھ کو میخانے میں ساقی نے
ارے اب پی بھی لے ، ایسا کہاں کا پارسا آیا
نظر سے دور ہو جاؤ ، چلو ، اٹھو، ہوا کھاؤ
نصیر ! ان کی طرف سے یہ جواب مدعا آیا