ہم آج دہکھتے ہیں زمانے کے رنگ اور
رسم و رواج اور ہیں جینے کے ڈھنگ اور
طرز معاشرت و معیشت اسی کے ہاتھ
دنیا میں چھا رہا ہے نظام فرنگ اور
نشرو اشاعت پہ ہے قابض صیہونیت
اب طور دشمنی کے و اسلوب جنگ اور
پہلے بھی کچھ سزا نہ تھی کم میرے واسطے
سچ بولتا ہوںمجھ پہ اٹھاؤ گے سنگ اور
مایوسیوں میں آس کی کرنیں برس پڑیں
جاگی ہے میرے سینے میں تازہ امنگ اور
سب لوگ ہاتھ جوڑ کے سہمے کھڑے رہے
حاکم کے سامنے تھا قلندر دبنگ اور
طاقت کو اپنی دیکھ کے دشمن پہ وار کر
خوش فہم عام طور سے ہوتا ہے تنگ اور
اب جاگ اور اپنے مقدر کو بھی جگا
لگتا رہے گا ذہن کو غفلت سے زنگ اور