ہم اتنی دیر رہے دور ... آشیانے سے
ہیں پس و پیش اب اپنے ہی گھر کو جانے
ہمارے سارے ہی اطوار تھے بہت خودکش
نہیں ہے کوئی بھی شکوہ ہمیں زمانے سے
کسی سے ہنس کے ملنا بھی اک عبادت ہے
غبار جھڑتا ہے اس دل کا ، مسکرانے سے
لگا تو ایسا لگا دل کے آر پار ہوا
میں چونکتا رہا ہر بار جس نشانے سے
بہت مہیب تھا دن ، قلب و جان بوجھل ہیں
دکھا اے رات مجھے خواب کچھ سہانے سے
تو مالا مال ہے حسن و بہار کے دھن سے
عطا ہوں ہم پہ بھی کچھ قربتیں خزانے سے