قدم قدم پہ مسائل ہی پاس رہتے ہیں
ہم ایشیا کے باشندے اداس رہتے ہیں
ہمارا آج ہے محفوظ ، نہ ہی کل کا پتا
ہزاروں ذہن میں خوف و حراس رہتے ہیں
ملی ہے بھوک ہی ورثے میں اکثریت کو
بے گھر ہیں پہنے بوسیدہ لباس رہتے ہیں
کوئ بدلتا نہیں مفلسوں کی حالت کو
ہر حکمراں سے ہمیشہ بے آس رہتے ہیں
لگائے سینے سے فرسودہ نظریات کو ہم
ہر ایک بات میں کرتے قیاس رہتے ہیں
گزارتے ہیں جو محرومیوں میں ساری عمر
کیا ایسے لوگوں کے قائم حواس رہتے ہیں ؟