ہم خوش گمانیوں میں غوطہ زن رہتے ہیں آج بھی
کہ اس دل میں امیدوں کے دئے روشن ہیں آج بھی
کہ ہم اس کی عنایت سے کبھی مایوس نہ ہوں گے
کہ ہم اس کی حمایت سے کبھی مایوس نہ ہوں گے
کہ ہم سے گردش دوراں ذرا ہشیار ہی رہنا
کہ ہم تیرے ستم کے وار دل پہ سہتے جائیں گے
مگر اے گردش دوراں ہمیں شکوہ نہیں ہوگا
کبھی اے گردش دوراں ہمیں شکوہ نہیں ہوگا
ہم خوش گمانیوں میں غوطہ زن رہتے ہیں آج بھی
کہ اس دل میں امیدوں کے دئے روشن ہیں آج بھی
اگرچہ دھوپ ہے تو کیا، کبھی سحاب پرسے گا
اگرچہ رات ہے تو کیا، کبھی انوار برسے گا
اگرچہ بن میں کانٹوں کی بڑی بہتات ہے لیکن
یہیں پھولوں سے چہرے بھی کبھی تو مسکرائیں گے
خوشی کے گیت گائیں گے میرا گلشن سجائیں گے
ہم خوش گمانیوں میں غوطہ زن رہتے ہیں آج بھی
کہ اس دل میں امیدوں کے دئے روشن ہیں آج بھی
کہ اس کی بے نیازی عیاں نیاز مندی ہے
لبوں پر مہر ہے پھر بھی نگاہوں میں کہانی ہے
کہ اس کے بن کہے ہم اس کی باتیں مان لیتے ہیں
بنا اس کے کہے ہم دل کا کہنا جان لیتے ہیں
ہم خوش گمانیوں میں غوطہ زن رہتے ہیں آج بھی
کہ اس دل میں امیدوں کے دئے روشن ہیں آج بھی