ہم دریا تو نہ تھے جو سمندر میں اُتر جاتے صبح کے بُھولے نہ تھے کہ شام کو گھر جاتے دامن جتنا پھیلایا رعنا اُتنے ہی چھید پڑے فرض تو یہ تھا پہلے ہی پتھر پہ ٹھہر جاتے