ہم سخن اچھّا لگا وہ ہم زبان اچھّا لگا
سچ کہا اس نے مگر اسکا بیان اچھالگا
بےنیازی میں بھی تھی ہم پر نظر جو آ پ کی
بے دھیانی میں جو ہم پر تھا دھیان اچھّا لگا
بوئے خاکِ یار سے مہکا ہوا آنگن ترا
اور اُس کے گِرد وہ کچّا مکان اچھّا لگا
صبح نو وہ نور کی چادر تھی پھیلی دور تک
اور اُس پر یہ کشادہ آسمان اچھّا لگا
سر جھکا کر بیٹھنا اسکا ہمارے درمیاں
مثلِ مہماں ایک انوکھا میزبان اچھّا لگا
(بشکریہ جناب وسیم احمد مغل)