اپنے خالی دامن میں خوش گمانیاں سمیٹ کر
ہم خود کا ہاتھ تھام کر بڑھتے چلے گئے
جو پیچھے مڑ کے دیکھا بہت دور کا سفر
چند ساعتوں میں کیسے کرتے چلے گئے
نہ کوئی آس پاس ہے نہ کوئی دور دراز ہے
اور اب ہم ایسے موڑ پہ تنہا کھڑے رہے
نہ واپسی کا راستہ نہ آگے کا سفر
ہم زندگی کے کیسے موڑ پر ٹھہر گئے
پر میری خوش گمانی ابھی تک ہے میری ہم سفر
ہاں میری خوش گمانی ابھی تک ہے میری ہم سفر