ہم سے اس کی یادوں کے چراغ سنبھالے نہ گئے
وقت کے تقاضے تھے جو ٹالے نہ گئے
وہ بدل گیا اس سے رابطے نہ رہے
میری باتوں سے مگر اس کے حوالے نہ گئے
اک انجان منزل کی جانب کیا تھا جو سفر
آج تک پاؤں سے اس مسافت کے چھالے نہ گئے
میرے درد کا مسیحا رہتا ھے جس نگری میں
بس اس جانب میرے قافلے والے نہ گئے
ھم سے پوچھو کتنا لطف ھے محبت کے آنسو رونے کا
اس سے مگر یہ انمول درد پالے نہ گئے