ہم نے جو کھویا وہی پایا نہیں کبھی
جو پاس ہے پاس وہی آیا نہیں کبھی
جس نے مجھے بھلایا بھول کی طرح
دِل سے ایک بس وہی بھلایا نہیں کبھی
بجتا ہے دِل کی دھڑکنوں میں ساز کی طرح
شدت کے ساتھ روح میں سمایا وہی نہیں کبھی
کیا کہنا ہے کِسے کیسے یہ بات کہتا رہتا ہے
مجھ سے جو کہنا ہے وہی بتایا نہیں کبھی
عظمٰی جو میرا اس پہ اسکا مجھ پہ حق رہا
اس نے نہ میں نے حق وہی جتایا نہیں کبھی