ہم نے مِٹا دیا مگر مِٹا نہیں سکے
خود کو بَھلا دیا مگر بَھلا نہیں سکے
دل کا ہر ایک زخم تمہیں کھول کھول کے
ہم نے دِکھا دیا مگر دِکھا نہیں سکے
عمر رواں کیسے گزاری ایک ایک لفظ
تم کو بتا دیا مگر بتا نہیں سکے
قصہ ہماری بےبسی کا ہم نے ہمنوا
تمہیں سَنا دیا مگر سَنا نہیں سکے
اپنی وفا کو عظمٰی بڑی راستی کے ساتھ
جھٹلا دیا ہم نے مگر جھٹلا نہیں سکے