اک بات ہے عجیب سی
سب کے مگر قریب سی
جانتے ہیں مگر انجان سب
اس سچ سے بد گمان سب
ہم کہیں نہیں ہوں گئے
ہم کہیں نہیں ہوں گئے
کچھ سال ہیں رنجشوں کے
کچھ سال محنت کشوں کے
کچھ سال اور ازیت کے بھی
کچھ سال اور اہمیت کے بھی
ہم کہیں نہیں ہوں گئے
ہم کہیں نہیں ہوں گئے
دل کا سب غم ختم ہو گا
ختم محبوب کا ستم ہو گا
ختم ہوگا امتحان زندگی
ختم ہوں گئے لمحات بندگی
ہم کہیں نہیں ہوں گئے
ہم کہیں نہیں ہوں گئے
کوئی خواب نہ کوئی درد رہے گا
نہ کوئی ظاہری ہمدرد رہے گا
اک ننھا سا گھر لے کر سوئیں گئے
ہم نہ کسی کی خاطر روئیں گئے
ہم کہیں نہیں ہوں گئے
ہم کہیں نہیں ہوں گئے
یہی امید دیتی ہے حوصلہ
ٹوٹ جاتا ہے ہر پرانا گونسلہ
نئے پنچھی سجاتے نئے رنگ ہیں
سسلہ زندگی سے سبھی دھنگ ہیں
ہم کہیں نہیں ہوں گئے
ہم کہیں نہیں ہوں گئے