ہمارے بعد محبت پہ یوں زوال آیا
وفا ،وفا نہ رہی حسن پر بھی کال آیا
کسی نے زخم اٹھاۓ نہ پھر ہماری طرح
کوئ بھی شخص ہماری نہ پھر مثال آیا
کسی کو بھی نہ میسر ہوا محبت میں
ہمارے حصے میں جو درد باکمال آیا
کہیں اسے بھی غم ہجر نے نہ گھیرا ہو
جو رات گرد ہماری لحد پہ ڈال آیا
کہ اس کے بن میں بھلا جی بھی پاؤں گا کہ نہیں
بچھڑتے وقت اسے کیوں نہ یہ خیال آیا
میں کیسے مان لوں گھر جا کے وہ بہت رویا
بچھڑ کے جس کی جبیں پر نہ کچھ ملال آیا
کوئ تو ہو گی مراسم کے ٹوٹنے کی وجہ
ہر ایک شخص کا ہم کو یہی سوال آیا
کچھ اس طرح سے بھی کھاتے رہے ہیں ہم دھوکے
زمانہ روز بدل کر نئ جو چال آیا
ہماری عمر ہی گزری ہے ہجر میں باقرؔ
وصال یار کا پھر سے نہ کوئ سال آیا