ہمارے حسنِ یقیں کو چلو ملا کچھ تو!
نیاز و ناز کا باقی بھرم رہا کچھ تو!
تری عطا کے بھروسے پہ کھو دیا شاید
نہ جانے کیا تھا مگر دسترس میں تھا کچھ تو!
تمام تر بخوشی تجھ کو پیش کر دیں گے
خزاں کے پنجہ ء تاراج سے بچا کچھ تو!
روش تم اپنی بدل ڈالتے تو بہتر تھا
بُرا مناؤ گے ہم نے اگر کہا کچھ تو!
ہماری تاب و تواں سے ہماری طاقت سے
بہت زیادہ ہے تیرا ستم گھٹا کچھ تو!
خوشی کی بات ہے عاشی بہت ہی تیرے لیے
کہ تیرے دل نے بھی آخر کہا سُنا کچھ تو!