وہ جو کل تک آشنا تھا کیوں اجنبی سا ہو گیا
خود کو کھونے کی لگن میں وہ ہمیں کھو گیا
جس کی جستجو نے ہمیں گرد راہ بنا دیا
وہ ہمسفر نہ جانے کس سفر کا راہی ہو گیا
کون جانے کس نگر میں اس نے بسیرا کیا
وہ تو بنجارہ جہاں جی چاہا تھک کے سو گیا
جو کل تک آشنا تھا کیوں اجنبی سا ہو گیا
خاک کو تو خاک میں ملنا تھا سو مل ہی گئے
اور وہ ماہتاب ہے تاروں کا ہمدم ہو گیا
کارواں کی دھول کو ہم دور سے تکتے رہے
اور وہ کارواں کے لئے میر کارواں ہو گیا
کاش کے ہم بھی اسے اس کی نظر سے دیکھتے
پھر نہ ہوتا یوں کہ وہ نظروں سے اوجھل ہوگیا
اب تو عظمٰی خواب میں بھی اس سے رابطہ نہیں
وہ جو کچھ نہ ہو کہ بھی سب کچھ ہمارا ہو گیا