عجیب لوگ ہیں باتوں سے مار دیتے ہیں
یوں بازی جیت کے بھی ہم تو ہار دیتے ہیں
نہ جینا آیا زمانے میں آج تک ہم کو
جو قدر کرتے نہیں ان کو پیار دیتے ہیں
ہمیں خلوص کا ذرہ بھی مل سکا نہ کبھی
ہم اپنی جان بھی لوگوں پہ وار دیتے ہیں
ہمارا ظرف تو دیکھو کہ ملنے والوں کو
خزاں کے بدلے میں مہکی بہار دیتے ہیں
مدد کے ہم سے ہیں طالب جو وقت پڑنے پر
ہمیں یہ کہتے تھے “ ہم نہ ادھار دیتے ہیں“
کرو تلاش زمانے میں ان فقیروں کو
جو اک نظر سے دلوں کو قرار دیتے ہیں
بنے ہیں دوست وہ زاہد عدو کہیں جن کو
ہمیشہ پھولوں کے بدلے میں خار دیتے ہیں