ہمیں نہیں پہچان پائے اپنے دوست احباب
ہم بھی یہیں موجود تھے لیکن پسِ نقاب
قطرہ قطرہ جی کے زیست سمندر کر ڈالی
لیکن یہی حقیقت ٹھہری زندگی حباب
چلتے چلتے چور ہوئے جنگل صحراؤں میں
خاک ہوئے مسافت میں پھر بھی مِلے سراب
تاروں کی نگری سے کوئی مجھکو لینے آیا
کل شب میں نے دیکھا ہے نیند میں ایسا خواب
جس کو پڑھتے پڑھتے مجھکو نیند نے آگھیرا
صبحِ دم میرے ہاتھوں نے تھامی وہ ہی کتاب
دل کے دروازے پہ کس نے کب دستک دی ہے
فرصت ہو تو کر کے دیکھے بندہ کوئی حساب
دنیا کے گورکھ دھندے میں سمجھ نہیں پائے
کتنے گناہ کمائے عظمٰی، کتنے مِلے ثواب
ہمیں نہیں پہچان پائے اپنے دوست احباب
ہم بھی یہیں موجود تھے لیکن پسِ نقاب