اسے جاننا ہے تو اس میں اترنا پڑے گا
گہرائی کہ خوف کو رد کرنا پڑے گا ۔۔۔ ڈوبنا پڑے گا
سب کچھ جو اطراف میں ہے چھوڑنا پڑے گا
جسم کی حقیقت سے غافل ہونا پڑے گا
(اب سمجھ میں آتا ہے یہ اللہ لوک کیو ں تن کی پروا نہیں کرتے ۔۔۔یہ جسم کو بطور بوجھ لئے پھرتے ہیں۔۔۔)
نگاہیں کہیں بھی ہوں
ایک ہی منظر نگاہوں میں رکھنا پڑے گا
روز و شب سے آزاد ۔۔۔سرد و گرم سے آزاد
سفر در سفر کرنا پڑے گا
دل کی دھڑکن پر جھومنا پڑتا ہے
جہاں سے اپنے اور رب کہ ہونے کا پتہ ملتا ہے
آلودہ زندگی سے بھاگنا پڑتا ہے
کبھی جوتے ، کبھی تھپڑ تو کبھی ڈنڈوں سے نفس کو پٹوانا پڑتا ہے
محسن کہ قدموں میں لوٹنا پڑتا ہے
ہر وقت لرزنا اور رونا پڑتا ہے
اپنے ناموں کی قید سے آزادی چاہئے
ان رشتے ناتوں سے آزادی چاہئے
اپنی سب سے قیمتی چیز کا بلیدان دینا پڑتا ہے
سب سے قریبی تعلق رد کرنا پڑتا ہے
پھر کہیں جا کہ بوجھل من ہلکا ہوتا ہے
تب کہیں جاکہ خدا کی معرفت کا در کھلتا ہے