ہو سکے تو لوٹ آنا شام ڈھل جانے تک
دل و نگاہ منتظر ہیں جاں نکل جانے تک
نگاہِ شوق میں ساون کا سماں ہے آ ٹھہرا
رستہ نہ بدل جانا موسم کےبدل جانے تک
قطرہ ء آب کی مانند عزمِ صمیم نہیں ٹوٹے گا
جہدِ مسلسل سے پتھر کے پگھل جانے تک
یاد ہے سب لہجے کے گُل و خار سے لیکر
تیرے تبسم پہ ، دل کے بہل جانے تک
لگتا ہے رضا ہاتھ بڑھائے گا چارہ گر میرا
لڑکھڑاتے ہوئے قدموں کے سنبھل جانے تک