ہوا میں اڑتے ہوۓ نرم آنچلوں کی طرح
تمہارا سایہ تھا ماں سر پہ بادلوں کی طرح
بڑے سکوں سے جڑیں کاٹتا رہا میری
وہ شخص جس کا رویہ تھا دوستوں کی طرح
میں کس طرح تیری چاہت کا اعتبار کروں
ترِا مزاج بدلتا ہے موسموں کی طرح
چلے تھے گھر سے ، زمانے کو ہم فتح کرنے
مگر وہ جوش تھا پانی پہ بلبلوں کی طرح
فقط ہواؤں کو مٹھی میں قید کرنے کو
میں بھاگتی ہی گئی دور پاگلوں کی طرح
کچھ اور بڑھ گیا ساون میں حسن بارش کا
تھی ایسی پتوں میں جھنکار پائلوں کی طرح
وہ لفظ تم نے محبت میں جو کہے مجھ سے
اداس شب میں چمکتے ہیں جگنوؤں کی طرح
میں تند موجوں کی مانند بے قرار رہی
رہا خموش ہمیشہ وہ ساحلوں کی طرح
ترے ہی نام کی جھنکار اس میں شامل ہے
بکھرتی سانس جو بجتی ہے پائلوں کی طرح