یونہی بے سبب انجام ہوا کرتے ہیں
زیست کے تو سبھی پرستار ہوا کرتے ہیں
رشتے احساس سے جب ہوں خالی
بے رحم تو پھر پنچھی بھی ہوا کرتے ہیں
سورج کی دوستی پہ کیوں ناز کریں ہم
کیا پھول بھی انگاروں پہ اگا کرتے ہیں
بے سبب کٹی یہ زیست کی گھڑیاں
ہم خود بے نام و نشاں سے ہوا کرتے ہیں
بے سبب ہی ہر کام ہوا کرتے ہیں
اب ہم خود سے ہی بیزار ہوا کرتے ہیں