ہوا کو ہمسفر لکھا، نصیب اپنا سفر لکھا
مقدر لکھنے والے نے کہاں کب مختصر لکھا
کوئی بندھن، کوئی ناتا، کوئی رشتہ نبھانا ہو
ازل سے صنفِ نازک کے مقدر میں ہے ڈر لکھا
کبھی دریا میں لکھی تشنگی ، خشکی میں سیرابی
کبھی جنگل میں لکھی دھوپ ، صحرا میں شجر لکھا
میں دل سے سوچتی ہُوں کیا تعلق میرا منطق سے
خرد کو میں نے کم تر، اور جنوں کو معتبر لکھا
فصیلیں کھوکھلی کر دی ہیں کچھ آکاس بیلیوں نے
لکیروں میں مری سہما ہُوا یہ کیسا گھر لکھا
سکوں، آرام ، راحت، چین تو اب خواب جیسا ہے
مرا ہر ایک پل پُر خوف ہر پل پُر خطر لکھا
حقیقت آشنا ہونے کو اک لمحہ ہی کافی تھا
اُس اک پل ہی کو سوچا پل پل اُس کو عمر بھر لکھا
سنبھالے ہے مجھے دیوانگی اُس شخص کی عاشی
جبیں پر جس کی ہے اخلاص نے آشفتہ سر لکھا