ہونٹوں پر مسکان ہے لیکن آ نکھیں ہیں نمناک سبھی
لوگ بظاہر خوش ہیں لیکن اندر سے غمناک سبھی
سوُد و زیاں کی فکر کسے ، اندیشۂ انجام کہاں ؟
دورِ اوایل عمرُ ی میں تو ہوتے ہیں بیباک سبھی
اب ہم کیوں نہ ایسا کر لیں دھرتی اوڑھ کے سو جایںٔ
غم کی بارش برساتے ہیں چاہت کے افلاک سبھی
کچی عمر کی نادانی میں سچایٔ کب دِکھتی ہے ؟
اِک دِن لیکن ہو جاتے ہیں خواب خس و خاشاک سبھی
لاکھ بچا کے رکھو دِل ، اِس سحر سے بچنا مشکل ہے
عشق سمندر میں ڈوُبے ہیں اکثر ہی تیراک سبھی
دیوانے پن میں بھی ان کا ہوش و خرد سب قایم ہے
چاہے تم نہ مانو یہ دیوانے ہیں چالاک سبھی
اِس دنیا میں ہر اِک درد کا درماں آخر ممکن ہے
وقت کا دھاگا سی دیتا ہے عذراؔ دامن چاک سبھی