ہے کون میرا عدو نام اب تو ثابت ہے
یہ سارا کس پہ ہے الزام اب تو ثابت ہے
سکون پانے کو آوارہ پھرتا رہتا ہوں
مجھے یہی ہے بس اک کام اب تو ثابت ہے
میں ہوش میں ہی چلا آیا بادہ خانے سے
ہو غم بھی پیتا نہیں جام اب تو ثابت ہے
گلی گلی میں ہیں اب میرے نام کے چرچے
ہوں تیرے نام پہ بدنام اب تو ثابت ہے
یہ شاعری کا ہنر اپنے پاس رہنے دو
نہیں ہیں اس کے کوئی دام اب تو ثابت ہے
خدا کو چھوڑ کے جو خود پہ مان کرتے ہیں
وہ لوگ رہتے ہیں ناکام اب تو ثابت ہے
مشقتوں نے بھلائے ہیں کتنے غم زاہد
انھیں میں ملتا ہے آرام اب تو ثابت ہے