غموں کی آگ میں چپ چاپ جل نہ جائے کہیں
یہ حسن راکھ میں اک روز ڈھل نہ جائے کہیں
یہ التفات سہی ،مجھ کو ڈر بھی لگتا ہے
کہ تو بھی اوروں کی طرح بدل نہ جائے کہیں
نظر میں پیار لیے مجھ پہ نہ جھکو اتنا
وفا کی لو سے بدن یہ پگھل نہ جائے کہیں
مجھے تو عشق کی مدہوشیوں میں دیکھے سدا
یونہی بہکتا رہے تو سنبھل نہ جائے کہیں
مرے گلاب کو زلفوں میں تم سجا لینا
تمھارے پیروں تلے یہ مسل نہ جائے کہیں
سنو جو گیت مرے دل کو تھام کر رکھنا
سروں کا جادو کہیں تم پہ چل نہ جائے کہیں
ہے چاند رات بھی اور حسن بھی جواں تیرا
یہ سوچتا ہوں مرا دل مچل نہ جائے کہیں
غزل ہے میری تمھیں عید کا حسیں تحفہ
تمھارے دل سے غزل یہ نکل نہ جائے کہیں