چھائی ہے دھوپ کیسی یارب ! مرے چمن پر
جیسے ہو بے کسی کی پرچھائیں بے وطن پر
آرام کی طلب تھی، تسکین کی تھی خواہش
نکلے ہیں جا بجا کیوں چھالے شکستہ تن پر ؟
بھولے ہیں یوں مسلماں آداب زندگی کے
اغیار تف کریں ہیں اب اپنی انجمن پر
کرتے ہیں قتل و غارت مسجد میں ، مدرسوں میں
ہنستے ہیں آجکل سب بوئے مئے کہن پر
ہر کوئی پھر رہا ہے حرص و ہوس میں ڈوبا
تہذیب نو کا جادو ایسا چلا وطن پر
سوچوں کے بانکپن پر پہرا ہے وحشتوں کا
پہرا ہئ وحشتوں کا سوچوں کے بانکپن پر
الفت کے پھول سارے کملا گئے ہیں کیوں کر ؟
نظریں لگی ہوئی ہیں اغیار کے چلن پر
مکر و فریب ہر جا ، ہر جا ہے چالبازی
شمشیر چل رہی ہے حلقوم سیمتن پر
آپس میں لڑ رہے ہیں ، باہم ہیں ست و پا ہم
دھبے لگا رہے ہیں اپنے ہی پیرہن پر
کس سے کہوں یہ باتیں ، سنتا ہے کون رومی !
بیٹھے ہیں لوگ سہمے انگلی رکھے دہن پر