یا کسی روڈ کے فُٹ پاتھ پہ مارے جائیں
یا کسی موت کے کُنویں میں اُتارے جائیں
موت ہر وقت بھٹکتی ہے ہمارے سر پر
زندگی ہم تیری دہلیز پہ ہارے جائیں
ہم ہیں حق گو ہمیں خطرات لحق ہوتے ہیں
ہم جہاں جائیں دُعاؤں کے سہارے جائیں
ہم سدا موت ہتھیلی پہ لِیے پِھرتے ہیں
کیا خبر زیست کے کِس موڑ پہ مارے جائیں
جب بھی مقتل کو لہُو دینے کی باری آئے
سرِ فہرست سدا نام ہمارے جائیں
پِھر سے مکتب میں دھماکہ کوئی ہو سکتا ہے
بچے کچھ گھر میں رہیں پڑھنے نہ سارے جائیں
ہم دھماکوں سے اگر بچ بھی گئے تو باقرؔ
عین ممکن ہے سِناں پر سے گُزارے جائیں