اب بھی ہم یاد بہت کرتے ہیں
ہم اُسے یاد بہت کرتے ہیں
اُس کی ہر بات دل کو دُکھانے والی
وہ ہر اک بات یاد بہت کرتے ہیں
وہ ہمیں بھول چکا کب کا لیکن
بھول جائیں ہم صبح شام کیا کرتے ہیں
اُس نے جو ڈھائے کبھی ہم پہ ستم
وہ ستم یاد بہت کرتے ہیں
تھا میرے جسم میں روح کی مانند
ہم بھی اب روح جدا کرتے ہیں
وقت اب آ چلا رخصت کا
اُس کو اب دل سے جدا کرتے ہیں
عہد پہلے بھی کئی بار کیئے اپنے سے
عہد کے بعد عہد ہر بار نیا کرتے ہیں