یاد میں تیری اکثر ہی گم ہوگئے
ہوش میں آ کے افسردہ ہم ہوگئے
تیرے چہرے کا جب بھی تصور کیا
آنکھ بھی نم ہوئی سر بھی خم ہوگئے
گزرے لمحے جو یاد آئے تنہائی میں
گوشے پلکوں کے نیچے سے نم ہوگئے
اب سنبھالے سنبھلتے نہیں تیرے غم
اتنی کثرت سے رنج والم ہوگئے
عشق کی آگ میں جلنے والے جلے
راکھ کا ڈھیر بن کر ختم ہوگئے
دست جرآت بڑھانے کی پاداش میں
ہاتھ تو ہاتھ سر بھی قلم ہوگئے
بن گئے آج ضرب المثل ہم یہاں
جب سے قصے ہمارے رقم ہوگئے
بے تکلف اشہر اب وہ اتنا ہوئے
پہلے ہم آپ تھے اب کہ تم ہوگئے