یاد یار ان کہن باقی ہے
ان سے ہی یاد وطن باقی ہے
مجھے منزل نے دیا ہی کیا تھا
پیار کی کوئی نشانی نہ بچی
ایک ہلکی سی چبھن باقی ہے
ذہن میں میرے تیری یادوں کا
ایک شاداب چمن باقی ہے
چھن گیا مجھ سے میرا سب کچھ
شعر کہہ لینے کا فن باقی ہے
گفتگو کر لینے کا ڈھب ہے مجھ کو
ذہن میں شور سخن باقی ہے
اک اک طرز ہاں بھول گئی
ہاں مگر طرز سخن باقی ہے
ابھی ناراض ہوں خود سے فرح
میرے ماتھے پہ شکن باقی ہے