یاد یہ کس کی آ گئی ذہن کا بوجھ اتر گیا
سارے ہی غم بھلا گئی ذہن کا بوجھ اتر گیا
زندگی کیا ہے غم ہے کیا سوچتے سوچتے یوں ہی
مجھ کو ہنسی جو آ گئی ذہن کا بوجھ اتر گیا
شام فراق میں مجھے تیرے ہی غم کے فیض سے
نیند اچانک آ گئی ذہن کا بوجھ اتر گیا
آج وفا کے ساز پر کون یہ عبرت سخن
میری غزل سنا گئی ذہن کا بوجھ اتر گیا
شدت رنج و یاس میں بھولی ہوئی کوئی خوشی
اتنا مجھے رلا گئی ذہن کا بوجھ اتر گیا
اچھا ہوا کہ دل کی بات آج کسی کے روبرو
میری زباں تک آ گئی ذہن کا بوجھ اتر گیا
یہ بھی خدا کا فضل ہے میری نوائے زندگی
اوروں کے کام آ گئی ذہن کا بوجھ اتر گیا
کشمکش حیات میں حد سے بڑھیں جو الجھنیں
آپ کی یاد آ گئی ذہن کا بوجھ اتر گیا
رزمیؔ بے قرار کو اہل خلوص کی نظر
پیار سے جب سلا گئی ذہن کا بوجھ اتر گیا