یاداشت کےخالی صفحے پر
اور اپنے تصورکی لوح پر
اک نقش بھاراتھا ہم نے
اک عکس اتار تھا ہم نے
پھر وقت گزرتا گیا یوں
وہ دید پرانی ہو گئی تھی
ہر چیز پرانی ہوگئی تھی
انجان وجودکےحآصےمیں
کہیں گہرائی میں وہ بیٹھ
پر عکس ناجانے کیوں اسکا
اس دل پہ مرتسم ہو نہ سکا
میں اب تک اس چہرےکو
ہر پرچھائی میں ڈھونڈتاہوں
اسے ہرجائی میں ڈھونڈتاہوں
بس
اک بار نظر جوآجائے
سینے میں بسالیں گےاسکو
ہم دل میں چھپا لیں گے اسکو