یادوں کے نقوش کو مٹانا نہیں آیا
لاکھ چاہا مگر ہمیں بھلانا نہیں آیا
نشتر ہاتھ میں لئے پھرتا ہے وہ ظالم
میرے سینے پر اسے مگر چلانا نہیں آیا
میری چاہت کے تو وہ سناتا ہے قصے
پاس محبت خوداسے نبھانا نہیں آیا
آج کسی اور کا بن کےمجھے جلانے آیا ہے
سنگ دل کو مگر مجھے جلانا نہیں آیا
وہ جو روٹھتا تھا تو میں مناتا تھا اسے
آج میں روٹھا ہوں تو اسے منانا نہیں آیا
میرا ہمسفر بن کے راہ میں چھوڑ گیا واجد
منزل پر پہنچ کر بھی ہمیں اسے بھلانا نہیں آیا