جگجیت سنگ ہم سے اچانک بچھڑ گئے
جو تھا غزل نوازِ دلآرا چلا گیا
تھا آبروئے ہند جو سارے جہان میں
فنکار وہ عظیم ہمارا چلا گیا
مشّا طہ عروسِ غزل عُمر بھر رہا
کرکے جہاں سے آج کنارا چلا گیا
شامِ غزل میں جس کے ترانوں کی دھوم تھی
تھا طرز جس کا سب کو گوارا چلا گیا
شہرت کے آسماں پہ درخشاں تھا عُمر بھر
تھا ضوفشاں جو مثلِ ستا را چلا گیا
اردو غزل کو جس پہ ہمیشہ رہے گا ناز
وہ غمزدوں کے دل کا سہارا چلا گیا
برقی نہ سوگوار ہو کیوں محفلِ غزل
تھا جان و دل سے سب کو جو پیارا چلا گیا