یادیں پھر یادیں ہیں
مٹھی میں سمٹ آتی ہیں
ریت کی طرح پھسلتی ہیں
اور زمیں پر بکھر جاتی ہیں
سپنے پھر سپنے ہیں
کب اپنے ہوتے ہیں
آنکھ کھلےتو دھوکہ دے جاتے ہیں
موسم پھر موسم ہیں
وقت کے سنگ بدتے ہیں
کبھی بہار کبھی خزاں
کبھی پت جھڑ دے جاتے ہں
آنسو پھر آنسو ہیں
جو سچی آنکھ سے بہتے ہیں
جاتے جاتے بھی سب کو سب کچھ کہ جاتے ہیں
رشتے پھر رشتے ہیں
کبھی بنتے اور بگڑتے ہیں
جو چاھو ان کو کبھی
تو یہ بھی چھوٹ جاتے ہیں
رنگ پھر رنگ ہیں
ہر سو بکھر جاتے ہیں
سب کو رنگیں بناتے ہیں
اک خیالی تصویر بناتے ہیں
بے رنگ کو بھی رنگ جاتے ہیں
دوست پھر دوست ہیں
کبھی عمر بھر ساتھ نبھاتے ہی
کبھی لمحہ بھر میں بچھڑ جاتے ہں
آس پھر آس ہے
سب کو ہی یہ راس ہے
کچھ نہ بھی ہو پھر بھی یہ پاس ہے
محبت پھر محبت ہے
نہ چاہو تم اگر
پھر بھی ہو جاتی ہے
پھر ایسی آگ لگاتی ہے
ہمیں عمر بھر رولاتی ہے
عداوت پھر عداوت ہے
نہی معلوم کب ہو جتی ہے
اگر گر جائے کوئی تو اور گراتی ہے
اپنی بے بسی پر
خود ہی قہقہے لگاتی ہے
ملن پھر ملن ہے
ہو جائے تو امر ہے
نہ ہو تو اک ایسی چبھن ہے
جو عمر بھر چبھتی ہے
دوری پھر دوری ہے
زندگی میں یہ بھی ضروری ہے
جو سبکی یاد دلاتی ہے
لفظ پر لفظ ہے
جو اک دوجے سے مل کر
ساری کہانی بناتے ہیں
قلم پھر قلم ہے
جو چاھے وہ لکھ دیتے ہیں
ہر درد کو کاغذ میں سمو دیتے ہیں
اور شام پھر شام ہے
تبھی تو اودس ہے
کیو نکہ
من میں گہری چوٹ ہے
اسکے سپنوں میں
اسکی گہری باتیں ہیں
ان باتوں میں اک راز ہے
اس راز میں اس کی زات ہے
اس کی زات میں یہ اک بات ہے
کہ وہ اداس ہے
زندگی پھر ذندگی ہے
سو دھنگ ہمیں سکھاتی ہیں
کبھی ہسنا کبھی رونا
کبھی پاا کبھی کھونا
سانسوں کے ساتھ چلتا ہے
سب اسکی چالیں ہیں
موت پھر موت ہے
تب ہی تو راحت ملتی ہے
کچھ پل سب کی چاہت ملتی ہے
گز دو گز جو زمیں ملتی ہے
اپنی جاگیر لگتی ہی
مٹی کی خوشبو بھی
کچھ اپنے جیسی لگتی ہے
اندھیڑی اس نگری میں
جو رب کی نظر کرم ہوتی ہے
تو پھر ہ شمعیں جلتی ہے
جو نہ بجھتی اور پگھلتی ہیں