یقین تجھ پہ کیا تھا دل نے
کہیں کیا اب نادان سا تھا
بتائیں کیا ہم بِتایا کیسے
جیون بھی امکان سا تھا
گرفتہ دل ہو اجاڑ کر کیوں
وہ گھر نہیں تھا مکان سا تھا
مجھے جو دیکھا تنہا کل شب
وہ جانے کیوں حیران سا تھا
جسے بنایا تھا دل کا مالک
وہ چند دنوں کا مہمان سا تھا
کبھی کبھی تو لگے ہے ایسے
کہ جیسے کوئی گمان سا تھا