دیوار پہ لرزہ ہے تو در کانپ رہا ہے
بچھڑے ہو تو اجڑا ہوا گھر کانپ رہا ہے
تم آنکھ کی پُتلی میں چُھپے سچ کو بھی دیکھو
مجرم تو نہیں ہے وہ اگر کانپ رہا ہے
ویران ہے اس درجہ ترے بعد مرا دل
اس شہر میں آتے ہوئے ڈر کانپ رہا ہے
اک میں کہ جدائی نے مجھے کر دیا ساکت
اک تو ہے کہ صدمے سے ادھر کانپ رہا ہے
آنگن کو پلٹ جاؤں نہ میں چھوڑ کے اس کو
صحرا میں مرا خوابِ سفر کانپ رہا ہے
یا تو مری بینائی پہ ہے خوف مسلط
یا نہر کے پانی میں شجر کانپ رہا ہے
بُجھنے نہیں دوں گا میں کبھی ہجر کے صدمے
دل میں تری یادوں کا شرر کانپ رہا ہے