یکسانیت سے دل میرا اَکتانے لگا ہے
کچھ اور نیا دل میرا اب چاہنے لگا ہے
محفل کی شورشوں سے گھبرانے لگا ہے
خلوت نشیں ہوجاؤں اَکسانے لگا ہے
ہر روز وہی قصے ہر وز وہی باتیں
دل واقعہ نیا کوئی دوہرانے لگا ہے
یکسانیت سے دل میرا اَکتانے لگا ہے
کچھ اور نیا دل میرا اب چاہنے لگا ہے
برسوں سے ایک ہی نشست ایک ہی فریضہ
لکیر کا فقیر بن کے اب نہیں رہ سکتا
کہنہ روایتوں سے جی چَرانے لگا ہے
یکسانیت سے دل میرا اَکتانے لگا ہے
کچھ اور نیا دل میرا اب چاہنے لگا ہے
اطراف کی دیواریں سب ڈھانے لگا ہے
حصار اب کوئی نیا بنانے لگا ہے
خود کو سمیٹنے لگا ہے ایک دائرے میں
ہر سمت سے دھیان کو ہٹانے لگا ہے
جان اپنی ہر مدار سے چھڑانے لگا ہے
مجاز کے سب دائرے گرانے لگا ہے
قبلہ بس ایک مرکزہ اپنانے لگا ہے
یکسانیت سے دل میرا اَکتانے لگا ہے
کچھ اور نیا دل میرا اب چاہنے لگا ہے
محفل کی شورشوں سے گھبرانے لگا ہے
خلوت نشیں ہوجاؤں اَکسانے لگا ہے