ہر گام پہ محشر کا سماں پیشِ نظر ہے
یہ کرہ ء خاکی ہے کہ آفات کا گھر ہے
کیا اس کا پتہ تم کو ہے کچھ اس کی خبر ہے
آئینہ جسے سمجھے ہو , وہ میرا جِگر ہے
میں راہِ زمانہ میں جو برباد ہؤا ہوں
یہ آپ بزرگوں کی دعاؤں کا اثر ہے
تقدیس سے خالی ہیں ترے حسن کے جلوے
اب تیری طرف دیکھنا , توہین ِ نظر ہے
ہنستی ہوئی آنکھوںسے مرے دل کو نہ دیکھو
یہ گوشہ ء فردوس نہیں , سُونا نگر ہے
چلتا ہوں تو چلتی ہے کسی جام کی صورت
یہ گردش ِ دوراں بھی مرے زیرِ اثر ہے
تو نور کا پُتلا ہے , کہ تارا ہے سحر کا
ماتھے کو ترے دیکھ کے شرمندہ قمر ہے
جا دیکھ محبت کے گراں قدر نطارے
اے نگہِ طلب روزنِ دیوار بھی در ہے
انسان کی حالت کا نہ کر تجزیہ اے دوست
جو عرش پہ اڑتا تھا کبھی خاک بسر ہے
میں خوب ہوں کیا خوب ہوں کچھ میری نہ پوچھو
خلوت سے گریزاں ہوں میں جلوت پہ نظر ہے
صحرا میں بھی تنہائی ہے گلستان بھی ہے ویراں
میں ڈھونڈھ رہا ہوں وہ ادھر ہے یا ادھر ہے
یاحسن کو اپنا لے ، یا لگا عشق کو دل سے
اک چاند کی بستی ہے ، اک کانٹوں کا نگر ہے
ساحل پہم پہنچنا ہے سلامت مجھے اک دن
مفتی مری کشتی کے تعاقب میں بھنور ہے