یہ بےرخی تو فطرت حسن ہے شباب
اتنا بھی نہ سمجھے کہ ادا بھی کوئی چیز ہے
کھل گئی جو آنکھ اپنی وقت کی صدا سن کر شباب
ہر قدم پہ ساتھ اپنے بس خود کو ہی دیکھتے ہیں
کوئی خوشبو کوئی آواز سنائی دے جائے
قید یاداں سے ایک پل جو رہائی دے جائے
جانے یہ میں ہوں کہ تو ہے ہا سوچوں کا بدن
میرے وجود میں ایک سایہ دکھائی دے جائے
بزم میں ہم نے جو دیکھی ان کی مسکان شباب
الفاظوں میں بھی شوخی کی ادا جاگ اٹھی