یہ تصور کا وار جھوٹا ہے
خواب جھوٹے ہیں سار جھوٹا ہے
پھول تم توڑ لائے شاخوں سے
کیا بہاروں سے پیار جھوٹا ہے
آنکھوں میں کچھ زبان پر کچھ ہے
تیرا کردار یار جھوٹا ہے
ساری گستاخیاں رہیں قائم
اس پہ رتبہ وقار جھوٹا ہے
لاپتہ ہوں میں گھر نہیں کوئی
چٹھی جھوٹی ہے تار جھوٹا ہے
موت سے تیز دوڑ کس کی ہے
عمر پر شہسوار جھوٹا ہے
دھوپ کے شول بکھرے ہیں ہر سوں
چاندنی کا خمار جھوٹا ہے
آنکھوں میں رکھ ہنر تکلم کا
لفظوں پر اعتبار جھوٹا ہے
بار خاطر ہے ہم کو فکر زیست
حسرتوں کا مزار جھوٹا ہے
ٹوٹنا آئنے کی فطرت ہے
پتھروں سے قرار جھوٹا ہے
چاندؔ کب تک کرو گے دل کا یقیں
آپ کا انتظار جھوٹا ہے