یہ تو ایک شعر تھا جوغزل میں ڈھل گیا
اک ذرا سی بات پہ عنوان ہی بدل گیا
میں نے تو کچھ اورسوچا تھا کہ ایسا ہوگیا
کہ میرے جذبات پہ جادو کسی کا چل گیا
سیدھے رستے کا مسافر چلتے چلتے ایک دن
آڑی ترچھی ٹیڑھی گلیوں میں کہیں نکل گیا
یہ بھی کیا کم ہے کہ ساقی تیری محفل سے کوئی
مے کشوں کی بھیڑ میں آیا بھی اور سنبھل گیا
تھا میرے لفظوں پہ عظمٰی اور ہی کوئی بیاں
لکھتے لکھتے میرے قلم سے یہ کیا پھسل گیا