یہ جو رنگ مجھ میں عشق تھا
کہیں تجھ میں وہ اُتر گیا
کہیں میں نہ منزل پہ پہنچ سکا
کہیں تو راستو سے پلٹ گیا
یہ جو رنگ مجھ میں فقیری تھا
کہیں رُوح سے میری تو گُزر گیا
اک خواب تھا تجھ کو پانے کا
میری چشمِ تر سے جو گزر گیا
میرے حال پہ زمانہ مُسکراتا ہے
میرے جسم میں ایسے تو اُتر گیا
اُسی رنگ میں رنگ دے مجھے نفیس
جو رنگ تجھ کو ہے چڑ گیا
یہ جو رنگ مجھ میں عشق تھا
کہیں تجھ میں وہ اُتر گیا